"” جیسے وقت گزر رہا ہے۔ زمانہ بھی بدل رہا ہے۔ اور بچوں کی تربیت کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدین اور بچے دونوں ہی کشمکش کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچوں کی تربیت کی سب سےپہلی درسگاہ ماں کی گود ہے۔ اور باپ کا کردار بھی بچوں کی تربیت میں بہت اہم ہے۔اس لیے ماں باپ کا فیصلہ ایک ہونا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ اور کوشش کرنی چاہیے۔
ایک دوسرے کی بات کو سننا چاہیے۔ اور اس کو سمجھنا چاہیے۔ کہ ماں باپ بچے کے سامنے ایک دوسرے سے عزت سے پیش آئے۔ اور لڑائی جھگڑا نہ کرے۔ کیونکہ بچہ وہی کرتا ہے۔ جو وہ دیکھتا ہے والدین کو یہی سوچنا چاہیے۔ کہ ہمارے رہنے والے گھر میں لوگ جو کریں گے۔ وہی بچہ بڑے ہو کر اپنے مستقبل میں دہرائے گا۔ پھر چاہے آپ اس کو کتنا بھی کوئی بات یا کوئی برے کام سے روک لے۔
پاکستان میں تعلیم آور انسانی فطرت :
لیکن وہ بچہ وہی کرے گا۔ جو اس نے اپنے بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہوگا گا۔ اور یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اور بچوں میں نوجوانوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ کہ جس چیز سے ان کو بار بار روکا جائے گا وہ ان کے لیے ایک تجسس بڑھ جائے گا۔ اور وہ اس تجسس کی کھوج میں اس عمل کو بار بار دہرائے گا۔
بچوں کو خوف یا کسی چیز کی لالچ دے کر کام کروانا:
- تعلیم و تربیت:
- بچہ آج کل سکول میں کیا سیکھتا ہے؟
- ماں باپ کیا چاہتے ہیں؟
- بچے کے لئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے
- ان پڑھ اور پڑھا لکھا میں فرق
- موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا
- اولاد کی تربیت
- آج کل کی تعلیم
- زیادہ تعلیم حاصل کر لینا:
- ماں باپ کی پریشانی کا باعث بچوں کی تعلیم کا خرچہ:
- ہمارے ملک کے اسکولوں کو کیا کرنا چاہیے
اس کو بھی لازمی پڑھے۔
ہم اللہ تعالیٰ کی قربت کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔
بچوں کو خوف یا کسی چیز کی لالچ دے کر کام کروانا:
ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ کہ ہم زیادہ تر اپنے بچوں کو یا تو کسی چیز کا لالچ دے کر پڑھائی کا کہتے ہیں۔ اور یا پھر ڈاٹ ٹپک کر کوئی کام کرواتے ہیں۔ یہ یاد رکھیں! کہ جب ہم بچے کو کوئی چیز کی لالچ دے کر کوئی بھی کام کرواتے ہیں۔ چاہے وہ اپنی تھوڑی بہت مدد کروانی ہو یا گھر کے کام کروانے ہو.باہر کے کام کروانے ہو۔
پاکستان میں تعلیم حساس کمتری:
مثال کے طور پر اگر ہم اپنے بچے کو باہر کے کام کرنے بھیجتے ہیں۔ اور اسے کہتے ہیں۔ کہ آ کر تم مجھ سے پیسے لے لینا۔ تو اس کو اس کی لالچ پڑ جاتی ہے ۔ اور وہ بچہ بڑے ہو کر اپنے مستقبل میں بھی لالچ کے لیے کام کرتا ہے۔ اور اگر آپ کے بچے کو ڈرا دھمکا کر پڑھنے کا یا کوئی کام کرنے کا کہتے ہیں۔ تو بچارے حساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ تو بہتر ہے ان دونوں کی بجائے آپ ان سے پیار اور محبت سے سے کام لے۔ وہ پڑھائی کا کام ہو یا پھر چاہے وہ باہر یا گھر کے کام ہو۔
پاکستان میں تعلیم و تربیت:
تعلیم بچے کے لیے اتنی ہی ضروری ہے۔ جتنی ضروری تربیت ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ کہ بچے کے لیے تعلیم سے زیادہ تربیت کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے۔ حقیقت تو یہ ہے۔ کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کے نام پر صرف لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یونیورسٹیاں اسکول کالجز صرف اور صرف پیسہ بنا رہے ہے۔ آج کل کے ماں باپ کیا کرتے ہیں۔ بچوں کو چھوٹی عمر میں سکولوں میں بھیج دیتے ہیں۔ اور تربیت نام کی کوئی چیز بچوں کو اپنے ماں باپ سے نہیں ملتی۔
بچہ آج کل سکول میں کیا سیکھتا ہے؟
جہاں تک میں نے دیکھا ہے۔ بچہ سکول میں جاکر بدتمیز ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ پیش کرتے ہیں۔ وہ بس وہیں سکتا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بچے کے ساتھ حسن سلوک سے دوسرے کے ساتھ پیش آئے۔ اگر وہ ایسا کرے گے۔ تو بچہ بھی دیکھ کر ایسا ہی کرے گا۔ اگر وہ کسی کے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ تو بچہ ہر کسی کے ساتھ برا سلوک کرے گا۔
ماں باپ کیا چاہتے ہیں؟
بچے کے لئے یہ ایک بہت بڑا سوال ہے!
ماں باپ اپنے بچے کو صرف اور صرف دنیاوی تعلیم دینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بڑا ہو کر ہمارا فرمابردار ہو۔ اور جوجیسے ہم ان کو کہے۔ اگر ہم ان سے کہیں! کہ وہ انجینئر بنے۔ تو وہ انجینئر ہی بنے گا۔ اور اگر ہم ان سے کہیں کہ وہ ڈاکٹر بننے تو وہ ڈاکڑ ہی بنے گا۔ ہم اپنی مرضی بچوں پر مسلط کرتے ہیں۔
اور اگر بچے کا ذہن اس طرف نہ ہو۔ تو اس کو بہت فورس کیا جاتا ہے۔ کہ نہیں تم نے یہی کام کرنا ہے۔ جو ہم نے تم سے کہہ دیا ہے. ہمیں بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرنی چاہیے. ذہن کے مطابق ان کو پروفیشن میں آنے دینا چاہئے. یہی ہمارے لیے بہتر ہے.
اس کو بھی پڑھے۔
امتحان میں کامیابی کے لیے وظیفہ
ان پڑھ اور پڑھا لکھے میں فرق !
ان پڑھ اور پڑھے لکھے میں واقعی بہت فرق ہے. یہ ہم نے بہت جگہ سنا ہوگا. لیکن میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کو ایسا دیکھا ہے. جو پڑھے لکھے ہو کر بہت بدتمیزہوتے ہیں. اوران پڑھ کو بہت ہی سمجھدار اور تمیزدار دیکھا ہے. کتابوں کا رٹا لگانے سے کوئی بھی انسان سمجھ دار اور تمیز دار نہیں ہو جاتا۔ ان کا زندگی کے امتحان میں اول آنا ضروری ہے جو کہ صرف ماں باپ کی تربیت سےآ سکتا ہے۔اور ماں باپ کو چاہیے۔ کہ وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا
آج کل کے ماں باپ کیا کرتےہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل پکڑا دیتے ہیں۔ اور آپ نے سوشل میڈیا کا ایک فرد بنا دیتے ہیں۔ اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ تو بہت زیادہ خراب ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ غلط بات پر بھی نہیں روکا جاتا۔ یہی وجہ ہے۔کہ بچہ اخلاقیات سے دور ہو رہا ہے
۔ اور بد تمیز سے تمیز ہوتا جا رہا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے۔ کہ ان کو غلط کاموں سے روکے شروع سے جب وہ چھوٹا ہو۔ تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کیا صحیح ہے۔ اور کیا غلط ہے۔ اور اس سے اچھا سلوک کریں۔ تاکہ وہ بھی دوسروں سے اچھا سلوک کرے۔
پاکستان میں تعلیم: اولاد کی تربیت
ماں باپ کو چاہے۔ اولاد کی تربیت بہت اچھے طریقے سے کریں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور سارا انصار تربیت پر ہوتا ہے۔اگر ہم اپنے بچے کی تربیت کو اچھا کریں گے۔ تو معاشرے میں برائی کا خاتمہ ہو سکے گا۔
آج کل کی پاکستان میں تعلیم
- اگر تعلیم ہمیں شعور دیتے تو عدالتوں میں انصاف کا خون نہ ہوتا ہوا دیکھتے!
- اگر تعلیم ہمیں شعور دیتی تواس طرح اپنے لیڈروں کو ایک دوسرے سے لڑتا نہ دیکھتے۔ جو اپنی عوام کو پیروں تلے روند رہے ہیں!
- اگر تعلیم ہمیں شعور دیتی توتو عدالتوں میں کالے کوٹ کے پیچھے جو رشوت لے کر انسان کے انصاف کا خون کرتے ہیں۔ وہ ہمیں نظر نہ آتے!
- اگر تعلیم ہمیں شعور دیتی۔ تو پولیس کی وردی کے پیچھے رشوت لیتے ہوئے ہمیں نظر بھی نہ آئے!
پاکستان میں تعلیم زیادہ حاصل کر لینا:
تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ سے زیادہ میں نے اپنی زندگی میں دیکھے ہیں۔ وہ ان کے ماں باپ بڑھاپے میں میں ان سے ہوئی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی اولاد ان کوکس طرح مایوس کرتی ہے۔ اور ان سے بے حد بدتمیزی سے پیش آتی ہے۔ تعلیم کا کیا فائدہ جو ماں باپ کی عزت کروانا ہی بھول جائے۔ اور بڑوں کا احترام اور شفقت چھوٹوں سے بھول جاتے ہیں۔
زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ بھی بدتمیز ہوتے ہیں۔ اور جاھل سمجھے جاتے ہیں۔ اور آپ دیکھیں گے! کہ ان پڑھ لوگوں میں تمیزبھی ہو گی۔ بڑوں کا احترام بھی ہوگا۔ اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آئیں گے۔ پتہ نہیں آج کل کے نوجوان خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔ اور کن ہواؤں میں اڑنے لگ جاتے ہیں۔ کہ انہوں نے پتہ نہیں کیا کر لیا ہے۔ ہم نے اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہیے۔ جتنا مرضی پڑھ لے اور اپنے اخلاق کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمیشہ بڑوں سے سے تمیز سے پیش آنا۔ احترام کرے۔ اور چھوٹوں سے شفقت کرے۔۔
ماں باپ کی پریشانی کا باعث بچوں کی تعلیم کا خرچہ:
- پاکستان میں تعلیم ایسی تعلیم ہیں جس کی وجہ سے ہر ماں باپ بڑھاپے میں بے یارومددگار نظر آتے ہیں۔
- اگر تعلیم ہمیں اتنا ہی شعور دیتی تو ماں باپ اپنے بچوں کو پڑھانے سے پہلے ڈھیروں شاپنگ اور کتابوں پر اتنا پیسہ لگاتے ہوئے نہ نظر آئیں۔
- ماں باپ تو اس بات پر پریشان ہوتے ہیں۔ کہ اگر ان کے بچے کو تعلیم دینی ہے۔ تو سب سے پہلے ان کے پاس ایک اچھی رقم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ پہلے تو یونیفارم خریدنا اور پھر نوٹ بک خریدنی پھر کتابیں خریدنی پڑھے گی
ماں باپ بہت پریشان
- اور پھر پینسل ریزر شاپنر خریدنے پڑتے ہیں۔ اور پھرسکول کے یہ فضول اخراجات! جیسے کے پیپر فرینڈ اورڈھیر ساری فیسیں سکول کے اور بہت اخراجات ہوتے ہیں۔ جن کو پورا کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیے ماں باپ بہت پریشان ہوتے ہیں۔
- کہ اپنے بچے کو تعلیم دینے کے لیے ان کے پاس پیسوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
امیر لوگ تو اپنے بچوں کی تعلیم پوری کروا دیتے ہیں۔ - لیکن جومیڈل کلاس طبقہ ہے وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات کسی نہ کسی طرح پورے کرتے ہیں۔
- اور جو ہمارا بہت غریب طبقہ ہے۔ وہ اپنے بچے کو اس خرچے کی وجہ سے پڑھا ہی نہیں پاتے!
- کہ ان کے یہاں اتنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔
اس کے لیے ہماری حکومت کو کوئی ایکشن لینا چاہیے۔ جس کی وجہ سے غریب طبقہ بھی اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کراو اسکے۔
ہمارے ملک کے اسکولوں کو کیا کرنا چاہیے
ہمارے ملک کے سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی بہت لازمی ہے۔ ان کو چاہئے! کہ اس پر جلد سے جلد کوئی ایکشن لیا جائے۔ بچوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی شامل ہوسکے۔ بچے سکول تو جاتے ہیں۔ تعلیم تو حاصل کرتے ہیں۔ لیکن تربیت صرف اور صرف ان کی زیرو ہو جاتی ہے۔
اور وہ خود کو پتہ نہیں کیا سے کیا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ جو کہ بالکل غلط ہے۔ اور ہمارے سکولوں کو اس پر سوچنا چاہیے۔ کہ ان بچوں کو کیسے تعلیم کے ساتھ تربیت دی جائے۔اور ہمارے معاشرے کے ماں باپ کو بھی چاہیئے۔ کہ اپنے بچے کو توجہ دے۔ چھوٹے چھوٹے کو بچوں کو ماں سکول تو بھیج دیتی ہیں۔
اسکول کی طرف توجہ
اپنے اوپر سے شاید بوجھ ہلکا کرنے کے لئے لیکن ایسا کرنا بہت غلط ہے۔ گھر میں پڑھنا چاہیے۔ بیسک سکھانی چاہیے۔ اور پھر اسکول کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اور تربیت لازمی ہے۔ بچے کی تربیت اس کو ماں کی گود سے ملتی ہیں۔ ماں باپ سے ملتی ہے۔ وہ نہ تو سکول میں پائی جاتی ہے۔ اور نہ ہی باہر ٹوویشنز، یا کسی اور جگہ پر پائی جاتی ہے۔