
"rishton ki dor”یہ کہانی ایک سچی اور ہماری فیملی پر بیتی گئی ایک دل خراش داستان ہے۔ کہ کسی پر اعتبار اور کسی کو اپنا بنا کر آپ اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ اور ان میں بھی آپ کو اپنے کسی پیارے سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یہ کہانی پڑھیں اور اپنے خیالات اظہار کمنٹس میں ضرور کریں۔
السلام علیکم ایک شہر میں ایک باپ کے دو بیٹے تھے۔rishton ki dor باپ کا نام ابوبکر تھا۔ اور ایک بیٹے کا نام مرتسم تھا۔ دوسرے کا نام خرم تھا۔ باپ بہت نیک تھا۔ پانچ وقت کا نمازی تھا ۔ اور بہت ہی ایماندار شخص تھا۔ دونوں بیٹے بھی بہت نیک اور سلوک اتفاق سے رہتے تھے۔ ان دونوں کی شادی ہو چکی تھی۔ ان کی بیویاں بھی بہت اچھے سے سلوک اتفاق سے رہتی تھی۔ اور ایک دوسرے سے بہت محبت سے پیش آتی تھی۔
مرتسمrishton ki dor کا دوست:
مرتسم اور خرم کا اپنا کاروبار تھا۔جو ماشاءاللہ کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ کہ لوگ ان دونوں بھائیوں پر رشک کرتے تھے۔ ان دونوں بھائیوں کا سلوک دیکھ کر لوگ اپنے گھروں میں جاکر ان دونوں بھائیوں کی مثالیں دیتے تھے۔ اورمرتسم کا دوست کافی عرصے سے سودیا میں تھا۔ وہ زبان کا بہت میٹھا تھا۔ اپنی زبان کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتا تھا۔ ان کو آپس میں لڑاتا رہتا تھا۔
مرتسم کے دوست کا نام اکبر تھا۔ اکبر کی دو شادیاں ہوئی تھی۔ اکبر کی دونوں بیویاں بہت اچھی تھی۔ اکبر اپنی بیویوں کے درمیان غلط فہمی ڈالتاrishton ki dor تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو اچھا نہیں سمجھتی تھی۔ اکبر کی والدہ اکبر کو بہت سمجھاتی تھی۔ لیکن اکبر نہیں سمجھتا تھا۔ اکبر کی زبان درازی کی وجہ سے اس کی دونوں بیویاں تنگ آ کر گھر چھوڑ کر اپنے اپنے مایکے چلی جاتی ہیں۔
بیویاں گھر چھوڑ rishton ki dorکر چلی گئی:
جب اکبر کے والد نے اکبر کو بتایا۔ کہ آپ کی دونوں بیویاں گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ تو کچھ ہی دنوں بعد اکبر سودیا سے واپس آ جاتا ہے۔ اکبر کے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔ اکبر کے ایک بھائی کا نام وحید تھا۔ اور دوسرے بھائی کا نام رشید تھا۔ اور بہن کا نام مریم تھا۔ بہت ہی پیاری تھی۔ مریم بہت خوبصورت تھی۔ دونوں بھائی نے شادی شدہ تھے۔ اکبر کے بھائی بھی اکبر کو بہت زیادہ سمجھاتے تھے۔
لیکن اکبر ان کی کسی بات کو نہیں مانتا تھا۔ اکبر کی والدہ نے اکبر سے کہا بیٹا اپنی بیویوں کو منا لو اور ان کو گھر لے آؤ۔ اکبر نے کہا امی آپ میرے ساتھ کل کو میرے سسرال چلے گا۔ ہم ان کو منا کر واپس لے آئیں گے۔ اکبر کی ایک بیوی کا نام نائلہ اور دوسری کا نام نبیلہ تھا۔
اکبر اپنی والدہ کے ساتھ نائیلہ کے گھر چلا جاتا ہے۔ اور وہاں جاکر نائلہ کے گھر والے اکبر اور اس کی والدہ کی بہت بیزتی کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ! نہیں بھیجنا ہم نے اپنی بیٹی کو آپ لوگ چلے جائیں۔ ہماری بیٹی نہیں مان رہی۔ اکبر ان سے کہتا ہے۔ میں نائلہ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اپنا نائلہ کو بھلا دیجئے۔
خلا کا نوٹسrishton ki dor جاری:
ان کے گھر والے نائلہ کو بھلا دیتے ہیں۔ اور اکبر نائلہ کو بہت سمجھ آتا ہے۔ لیکن نائلہ کی بات ہوتی ہے۔ کہ مجھے تو بس طلاق چاہیے۔ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی آپ مجھے ایسے ہی جب طلاق دیتے ہیں۔ نہیں تو آپ جانتے ہیں۔ میں کورٹ کے ذریعے بھی خلا کا نوٹس جاری کر سکتی ہو۔
اگلے دن اکبر کی دوسری بیوی نبیلہ کے rishton ki dor گھر اکبراور اس کی والدہ اور دونوں چلے جاتے ہیں۔ نبیلہ اکبر کی دوسری بیوی ہے۔ اکبر کی والدہ نے نبیلہ کی ماں سے بات کی۔ کہ نبیلہ کو ہمارے ساتھ بیجھ دے۔ جو بھی غلط فہمی ہوئی۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔ وہ دوبارہ نہیں ہوگا۔ نبیلہ کے والد نہیں تھے۔ وہ فوت ہوچکے تھے۔ نبیلہ کے ایک بھائی تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
نبیلہ کی والدہ نے ایک ہی جواب دیا۔ میری ایک شرط ہے۔ میں اپنی بیٹی کو سمجھاوں گی۔ اکبر کی والدہ نے کہا۔ بہن آپ کی کیا شرائط ہیں۔ ہم آپ کی ہر شرائط ماننے کو تیار ہیں۔
اللہ تب بھی آپ لوگوں کے ساتھ آپ کے گھر جائے گی جب آپ میری یہ شرط مان لیں گے۔ آپ اپنی بیٹی مریم کا رشتہ میرے بیٹے موسی کو دے دو۔ اکبر اور اکبر کی والدہ سوچ میں پڑ گے۔ ۔ یہ کیسی شرط ہے۔ نبیلہ کی ماں نے کہا۔ آپ کو یہ شرط منظور ہے۔ تو میں نبیلہ کو آپ کے ساتھ بھیج دو گی۔ نہیں منظور تو آپ جا سکتے ہیں۔ اکبر اور اس کی والدہ گھر آگئے۔ گھر آکر اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا۔ بیٹوں نے کہا کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر یہ رشتہrishton ki dor ہو جائے توماں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اگر یہ رشتہ ہو جائے۔ تو تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
rishton ki dor شادی کے لئے تیار ہوں:
بیٹی نے والدہ کے ساتھ تھوڑی بہت بحث کی۔ کہ بھائی کی وجہ سے میری زندگی کو کیوں داؤ پر لگا رہے ہو۔ میں یہ شادی نہیں کر سکتی لیکن ماں نے اپنی بیٹی کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی اور بیٹی بہت سمجھانے کے بعد آخرکار مان گی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور کہا مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس شادی سے میں اس rishton ki dor شادی کے لئے تیار ہوں ۔
اکبر کی والدہ نے نبیلہ کی والدہ کو فون کر کے بتایا۔ کہ ہمیں آپ کی شرط منظور ہے۔ میں اپنی بیٹی مریم کا رشتہ آپ کے موسی کو دینے کے لئے تیار ہوں۔ جب یہ بات نبیلہ کی والدہ نے سنی۔ تو انہوں نے فون پر کہا۔ کہ آپ آ کر اپنی بہو کو لے جائیں۔ اور مریم اور موسی کے رشتے کی ڈیٹ فیکس کر جائیں۔
اکبر اپنی بیوی کو گھر واپس لے آتا ہے۔ اور اپنی بہن کا رشتہ فکس کرکے اس کی ڈیٹ فائنل ہو جاتی ہے۔ اور ان دونوں کی شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ نبیلہ مریم سے بہت پیار کرتی تھی۔ اور کچھ ہی دنوں میں وہ اس کی بھابھی بننے والی تھی۔ وہ اس بات سے بہت زیادہ خوش ہوتی ہے۔ اور اکبر بھی اپنی بہن کی شادی کی تیاریوں میں لگ rishton ki dor جاتا ہے۔ اور نبیلہ بھی اکبر کے ساتھ مل کر شادی کی تیاریاں کرتی ہیں۔ ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ اکبر اپنی پہلی بیوی نائلہ کو طلاق دے دیتا ہے۔ یہ قصہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔
سعودیہ rishton ki dor سے واپس:
اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ ایک دن اکبر اپنے دوست مرتسم کی دکان پر جاتا ہے۔ اور دکان میں مرتسم اور اس کا بھائی خرم بیٹھے ہوتے ہیں۔ اکبر نے جا کر سلام کیا۔ اور بیٹھ گیا۔ مرتسم نے پوچھا! کہ آپ سعودیہ سے کب واپس آئے اکبر نے کہا مجھے ایک ماہ ہو گیا ہے سعودیہ سے واپس آئے ہوئے۔ مرتسم نے پوچھا اچھا کام کیا کرتے ہو۔ کیا ہو رہا ہے آج کل کیا کر رہے ہو۔
اکبر نے کہا ٹھیک ہے۔ اچھا چل رہا ہےrishton ki dor ۔ اکبر مرتسم سے آپ سنائیں کاروبار کیسا چل رہا ہے۔ مرتسم نے کہا ماشاءاللہ بہت اچھا چل رہا ہے۔ اکبر نے کہا کہ گھر میں سب ٹھیک ہے۔ مرتسم نے کہا اللہ کا کرم ہے۔ گھر والے بھی ٹھیک ہے۔ مرتسم نے کہا! آپ سنائیں بھابھیاں اور سارے گھر والے کیسے ہیں۔ اکبر نے کہا گھر میں کچھ مسئلہ پیدا ہوگئے تھے۔ اب ٹھیک ہیں۔ بہن کی شادی کی ہے۔ اور دونوں بیویاں ناراض ہو کر چلی گئی تھی ۔ ایک گھر آ گئی ہے۔ دوسری کومیں نے طلاق دے دی ہے۔
اکبر کا کاروبار بالکل ختم:
جب سے میں آیا ہوں۔ ان مسلوں میں پڑہوا تھا۔ اب سب ٹھیک ہے کچھ دیر بعد مرتسم کے والد بھی آگئے۔ مرتسم کے والد سے اکبر کی سلام دعا ہوئی۔ حال احوال پوچھا۔ تو اکبر نے کہا۔ اللہ کا کرم ٹھیک ہے۔ اور مرتسم کے والد اکبر سےrishton ki dor اس کے گھر والوں کا پوچھا اکبر نے سب انکل کل کو بتایا۔ آپ کی دعاؤں سے اللہ کا کرم ہے۔
آہستہ آہستہ اکبر ہرموتسم کی دکان پر بیٹھنے لگا۔ اکبر کا کاروبار بالکل ختم ہو چکا تھا۔ یہ بات مرتسم کو نہیں پتا تھی۔ اکبر ان دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیا۔ اور ان میں لڑائیاں ڈھلوانی شروع کر دی۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا اس نے اور اس نے میٹھی زبان کے ساتھ بڑے بھائی کو اپنے قابو میں کیا۔اور آہستہ آہستہ کاروبار کو سمجھ لیا۔ اور سارے کاروبار کی سمجھ اس بڑے بھائی سے لے لی۔
دکان سے پیسہ نکالنا:
اور ان دونوں کو آپس میں لڑوا دیا۔ دونوں بھائی آپس میں اتنا بد گمان ہوگئے تھے۔ کہ آپس میں بہت زیادہ لڑائی جھگڑا کرتے۔ ان کے والد کو اکبر پر بہت اعتبار تھا۔ کہ وہ بہت نیک انسان ہیں۔ ان کے والد نے فیصلہ کیا۔ اور میں دکان پر جایا کروں گا۔ لیکین والد کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے انہوں نے اکبر پر بہت یقین کیا اور اس کو دکان کا سربراہ بنا دیا. اور اپنے بچوں کو اس کے نیچے کام کرنے کا حکم دیا۔ دن گزرتے گئے. کہ اس نے ان کی دکان سے پیسہ نکالنا شروع کر دیا. اور ان کو کہتا ہے۔
میں قرضہ اتار رہا ہوں۔ آپ کے اوپر بہت قرضہ چڑھ چکا ہے۔ مرتسم کو جب اس بارے میں خبر ہوئی۔ کہ اکبر ہمارے ساتھ دھوکا کر رہا ہے۔ کہ ہمارے قرضہ نہیں اتار رہا ۔ ہلکہ اکبر نے ہیں ہم پر قرضہ چڑھایا ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرضے اتار نہیںrishton ki dor رہا۔ اکبر یہ سارا پیسہ ایک سائیڈ پر جمع کرتا گیا۔ مرتسم نے یہ سارا ماجرہ اپنے بھائی خرم اور اور اپنے والد صاحب کے ساتھ ڈسکس کیا۔ لیکن تب تک ان دونوں بھائیوں کو آپس میں بہت بری طرح سے لڑوادیا۔
اس کا بھائی ٰخرم اس کی باتوں پر یقین نہیں کر رہا تھا۔ نہ اس کے والد صاحب اس کی بات مان رہے تھے۔ لیکن مرتسم نے بھی ٹھان لی۔ کہ میں اس کے ثبوت اکٹھے کروں گا۔ اور ان کو یقین دلاؤں گا۔ کہ اس نے ہماری دکان کو پوری طرح تباہ و برباد کر دیا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مرتسم نے آخرکار اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کر لئے کہ یہ کوئی قرضہ نہیں آتا رہا۔
rishton ki dor کاروبار تباہ ہو چکا تھا:
اس نے جو قرض ہم پر چڑھایا ہیں۔ وہ ہم پر ویسے کے ویسے ہی نہیں چڑھے ہوئے ہیں۔ اور یہ جو دکان سے پیسہ نکال رہا ہے۔ وہ یہ اپنے پاس سائیڈ پر رکھ رہا ہے۔ اور دونوں بیٹوں کو اس کے بارے میں اس کا پتہ چل۔ تو اس دونو ں نے اس کو نکال کر باہر کیا۔ لیکین اس وقت تک ان کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا۔
مرتسم اور خرم بہت پریشان تھے۔ کہ اب کیا کیا جائے کاروبار تو پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ پھر ان کو rishton ki dor کسی نے یہ وظیفہ بتایا۔ اس وظیفے کو ان دونوں بھائیوں نے اور اس کے گھر والوں نے مل کر کیا۔ اور پھر سے ان کا کاروبار چمکنے دمکنے لگ گیا۔ اللہ تعالی نے اکبر کو اس کے کیئے کا صیلا دیا. لیکن عادت تو عادت ہوتی ہے۔ اس نے دکان سے ہٹنے کے بعد بھی لوگوں سے ان لوگوں میں بدگمانیاں پھیلانا بند نہیں کی۔ اور ان کو بہت برا بھلا بنایا۔
نتیجہ
کہ وہ پوری طرح برباد ہو گیا۔ اس کی بیٹی بہت چھوٹی تھی۔ اس کی بیٹی کا انتقال ہوگیا وہ بہت زیادہ بیمار رہنے لگی تھی ظاہر rishton ki dor سی بات ہے جب حرام پیسہ آپ اپنے گھر والوں کو کھلاؤ گے۔ تو یہی سب ہوگا۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کو سزا دی اور اس کی بیٹی مر گی۔ کسی کا کاروبار تباہ کرنے کی کیا سزا ہو سکتی ہے اللہ تعالی کس شکل میں اس کو سزا دے سکتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا لیکن ہم سب کو اتنا یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی جو کرتے ہو بہترین کرتے ہیں۔ وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے ۔
پانچ وقت کا نمازی:
جب ہم کوئی بھی وظیفہ کرتے ہیں. تو اس کی احتیاطی تدابیر یہ ہمیں یاد رکھنی چاہیے. کہ جب بھی کوئی وظیفہ کرے تو یہ ضروری ہے. کہ ہم وظیفہ کرنے والے کو پانچ وقت کا نمازی ہونا ضروری ہے. باوضو ہوکر یہ وظیفہ کرے. اور جس جگہ پر اس وظیفے کو کر رہے ہیں. وہ جگہ کا پاک صاف ہونا بہت ضروری ہے. اور آپ کا باوضو حالت میں ہونا آپ کے کپڑوں کا صاف ہونا بہت زیادہ ضروری ہوتا ہے.
زبان بندی کا وظیفہ – کسیrishton ki dor کی بد زبانی کو ختم کرنے کا آزمودہ وظیفہ اس وظیفہ کو کرنے سے آپ کا خاندان اور آپ کے دوست احباب کسی کی بد زبانی اور بد اخلاقی سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اس وجہ سے ان میں کوئی بدزبانی کی وجہ سے پھوٹ ڈال رہا ہے۔ تو اس کو روکنے اور زبان بندی کا وظیفہ – کسی کی بد زبانی کو ختم کرنے کا آزمودہ وظیفہ ہے۔
وظیفہ: "rishton ki dor”
اکثر اوقات دشمن ایسے ہوتے ہیں۔ جو بدگمانی پھیلاتے ہیں۔ اور بدگمانی پھیلانے کے بعد آپ کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا کچھ اپنے درمیان پائے۔ کسی دشمن کو اس طرح سے آپ کے خلاف بد گمانی پھیلاتے ہوئے دیکھے۔ یا لڑائی آگ لگاتے ہوئے آپ دیکھیں! تو اس کے لئے اس عمل کو لازمی کریں۔
اس عمل کو کرنے کے لیے روزانہ فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد بعد 75 مرتبہ یہ آیت کو پڑھیں۔ آیت کو پڑھنے کے بعد اپنے دشمن کا نام لے کر اللہ تعالی سے دعا کریں۔ کہ ہمیں اس کے شر سے محفوظ رکھنا۔ اللہ تعالی تو ہی سب پر rishton ki dor ہے۔ جس کو چاہے عزت دے دیں۔ اللہ تعالی ہمارے عزت کو برقرار رکھنا۔ اللہ جی دشمن کی زبان بندی ہو جائے۔ جیسے ہمارے خلاف لوگوں میں غلط بات پھیلا رہا ہے۔ وہ سب بھی بند کر دے۔ اور اس کو عقل ہدایت دے۔
اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ