
"rishton ki talkhiyan ” ایک وقت کا واقعہ ہے ایک شہر میں دو بہن بھائی رہتے تھے. ان کے ماں باپ فوت ہوچکے تھے. بھائی کا نام فہد اور بہن کا نام ثمینہ تھا. فہد ڈاکٹر تھا. اور ایک چھوٹا سا ہوسپٹل چلاتا تھا۔ اور اس کی بہن بھی ڈاکٹر تھی۔ فہد کی یہ خواہش تھی۔ کہ میں اپنی بہن کی شادی کسی ڈاکٹر کے ساتھ کرو۔
لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اور اس کی شادی گورنمنٹ جاب کرنے والے شخص سے ہو گی۔ لڑکا اچھی نوکری کرتا تھا۔ لڑکے کا نام زبیر تھا۔ اب گھر میں خالی ساrishton ki talkhiyan ہو گیا تھا۔ اس لیے فہد نے سوچا میں بھی شادی کر لو۔ کئچھ عرصہ بعد فہد نے بھی شادی کر لی۔ فہد کی بیوی کا نام ہیرہ تھا ۔
rishton ki talkhiyan ثمینہ کی شادی
ہیرہ ایک بہت اچھی اور نیک لڑکی تھی۔ اس نے آکر پورا گھر سنبھال لیا تھا۔ اور فہد کا بہت خیال رکھتی تھی۔ جس گھر میں ثمینہ کی شادی ہوئےٓی تھی۔ وہ فیملی بھی بہت چھوٹی تھی۔ ۔ جس گھرمیں ماں اس کا بیٹا اور اس کی بہورہیتی تھی۔ بیٹے کا نام زبیراور بہو کا نام ثمینہ تھا۔ ساس کا نام رضیہ تھا۔
بہو ثمینہrishton ki talkhiyan
بہو ثمینہ شروع ہی سے اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے شوہر نے شروع دن سے اس کی اس بات کو نہ مانا تھا۔ اوراس کو کہا کہ میں اپنی ماں کے ساتھ رہوں گا۔ اور تمہیں بھی میری ماں کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ لیکن اس کی ماںاپنی بہو ثمینہ سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس کو کوئی کام نہ کرنے دیتی تھی۔ سارے کام خود کرتی تھی۔ ثمینہ اپنی ساس کو نیچا دکھانا چاہتی تھی”رشتوں کی تلخیاں”.
صبح سویرے ہی شوہر کام پر چلا جاتا تھا۔ اور گھر میں صرف ثمینہ اوراس کی ساس رضیہ رہ جاتی تھی۔ رضیہ کی زبیر کے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے اس کی بیوی بھی ثمینہ ساس کی لاڈلی تھی۔ جیسے ہی اس نے اپنے بیٹے کی شادی کی اس نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی اور بہت خوش ہوئی۔
rishton ki talkhiyan ساس رضیہ
صبح اٹھ کر ناشتہ کئے بغیرزبیر کام پر چلا جاتا تھا۔ اور بعد میں ثمینہ اٹھ کر اپنی ساس رضیہ سے کہتی۔ مجھے بھی ناشتہ بنا دو۔ کچھ عرصہ تک تو ایسے ہی چلتا رہا۔ رضیہ ثمینہ کو بھی ناشتہ بنا کر دیتی رہی ۔ گھر کا سارا کام بھی کرتی رہیی۔ اور اپنے بیٹے کے لیے بھی کھانا بنا کررکھتی۔
ثمینہ کا کام سب کھانا پینا اور کمرے میں آرام کرتے ہوئے ٹی وی دیکھنا تھا۔ ایسے ہی کرتے کرتے ایک سال گزر گیا۔ اور اس کی ساس رضیہ تھوڑا بیمار رہنے لگی۔اب اس سے کام نہ ہوتا تھا۔ تو گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ زبیر کو وقت پر کھانا نہ ملتا تو اس سے لڑائی کرتا۔ کپڑے استری نہ ملتے تواپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا ہوتا.
بڑوں سے کیسے بات کرو
۔اور ثمینہ کو جب ساس کہتی کہ rishton ki talkhiyanبیٹا اٹھ کر توڑا کام دیکھ لوں۔ کھا نا بنا لو۔ تو ثمینہ بہت بتمیزی کرتی۔ کہ حد ختم ہو جاتی۔ ٓساس کو کہتی کہ مجھ سے کام نہیں ہوتا۔ میں کوئی کام نہیں کروں گی۔ سارا کام آپ کرینگی گی۔ رضیہ توبہ توبہ کرتی اور کانوں کو ہاتھ لگاتی اور کہتی تم میں تو ذرا بھی تمیز نہیں ہے۔ کہ بڑوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔
اس رات جب زبیر گھر واپس آیا۔ تو اس کی ماں نے یہ سارا واقعہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیان کیا۔ کہ تمہاری بیوی نے آج میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ اور اس کی کتنی گزبر لمبی زبان ہے۔ اس کو زاہ تمیز نہیں ہے۔ کہبڑوں سے کیسی بات کی جاتی ہیئں "رشتوں کی تلخیاں”۔
ایک دن دنیا رضیہ کے گھر میں محلے میں سے ایک عورت آئی۔ اور وہ پوچھنے لگی۔ کہ آپ کی بہو کیسی ہے۔ اس نے بتایا کچھ نہ پوچھو میں تو کچھ نہیں بتا سکتی۔ اس عورت نے کہا۔ کیوں کیا ہوگیا رضیہ تم نے اپنی بیٹے کی شادی کی تھی۔ تب تو تم نے پورے محلے میں نے مٹھائی بانٹی تھیں۔ رضیہ کہتی ہے۔ میری عقل ماری گئی تھی۔ میں نے سوچا تھا۔ کہ بیٹے کی شادی کرو گی۔
اصلیت کا پتہ چلا
اور میں اپنی بہو کو بہت محبت اور پیار سے رکھو گی۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔ اور اس کو کبھی کوئی کام نہیں کہا۔ لیکن اب میری طبیعت کئچھ نہ احساس ہے۔ تو اس کو بھی میرا خیال کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اب جب مجھ سے کام نہیں ہوتا۔ تو مجھے اس کی اصلیت کا پتہ چلا۔ یہ تو کسی کام کی نہیں ہے۔
کوئی کام نہیں کرتی ، بس کھانا rishton ki talkhiyanکھاتی ہے۔ کمرے میں جاتی ہے۔ اور سو جاتی ہے۔ اپنے شوہر کا بھی خیال نہیں رکھتی۔ ثمینہ یہ سب باتیں باہرکڑی سب باتے سن رہی ہوتی ہے۔ اس کو غصہ آتا ہے۔ اور یہ آ کر کہتی ہے۔ کہ آپ کو اور کوئی کام نہیں ہے۔ دوسروں کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اگر اپ کی باتے ختم ہوگئی ہو
تو اپنے گھر جا سکتی ہیں۔ وہ عورت کہتی ہے۔ توبہ توبہ لڑکی کی تو بہت بڑی زبان ہے۔ رضیہ اس کے ساتھ کیسے گزارا کرتی ہو۔ یہ کہہ کر وہ عورت چلی گئی تھی۔ رضیہ کہتی ہے۔تمہاری بہت بہت لمبی زبان ہیں۔ کسی مہمان کا لحاظ کر لیا کرو تمہیں تو کسی چھوٹے بڑے کا لحاظ ہی نہیں رہا۔
rishton ki talkhiyan پریشان ہونا چھوڑ دو
ثمینہ غصے میں کہتی ہے. کہ میں جا رہی ہوں اپنے بھائی کے گھر اب میں کوئی فیصلہ کر کے ہی واپس آؤں گی. یا تو آپ کا بیٹا آپ کے ساتھ رہے گا. یا میرے ساتھ رہے گا. اس کو دونوں میں سے ایک کے ساتھ رہنا ہوگا۔ یہ سب اس کے شوہر زبیر کو پتہ چلتا ہے۔ تو وہ بہت پریشان ہوتا ہے۔
اور یہ ساری بات ایک بزرگ کے ساتھ شئیر کرتا ہے۔ تو وہ بزرگ اس کو اایک وظیفہ بتاتا ہے۔ کہ تم یہ وظیفہ کرو انشاء اللہ تعالی اللہ تعالی کے حکم سے تمہاری بیوی اور ساس کے درمیان سارے تعلقات سہی ہو جائے گے۔ تمہاری بیوی راہ راست پر آجائے گی ۔ تم پریشان ہونا چھوڑ دو rishton ki talkhiyan سب یہ وظیفہ کو نہ چھوڑنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
تمہاری بیوی کو نسیت ہو جائے گی۔ اور وہ سمجھ جائے گی کہ وہ سب غلط کر رہی تھی۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ثمینہ ناراض ہو کر اپنے بھائی کے گھر چلی جاتی ہے. وہ بھائی کے گھر جاتی ہے. تو ابھی اس کا بھائی ہوسپٹل سے فارغ ہو کے گھر آتا ہے. تو اس سے پوچھتا ہے. کہ ثمینہ تم یہاں اکیلی آئی ہو.
ایسا بھیrishton ki talkhiyan کیا ہوگیا
زبیر تمہارے ساتھ نہیں آیا ۔ اور ثمینہ جواب دیتی ہے۔ بھائی میں اکیلی آئی ہوں۔ زبیر کو بھی نہیں پتا۔ کہ میں یہاں آئی ہو۔ بھائی میں زبیر کے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ میں زبیر کی امی کے ساتھ نہیں رہ سکتی وہ وہ بہت غلط باتے کرتی ہے۔ ثمینہ کا بھائی کہتا ہے۔ ایسا بھی کیا ہوگیا تو تم وہاں نہیں رہ سکتی۔
اپنے بھائی کو کہتی ہے اگر آپ کو میرا یہاں آنا نہیں اچھا نیہں لگا۔ تو میں یہاں سے چلی جاتی ہو۔ اس کا بھائی کہتا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہے۔ کہ بیٹیاں تو اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ یہ جتنا گھر میرا ہے۔ اتنا ہی تمہارا ہے۔ تم یہاں جتنی دیر چاہو۔ اتنی دیر رہ سکتی ہو۔
مجھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرے لئے تمہیں روٹی دینا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ تم یہاں آرام سےrishton ki talkhiyan رہ سکتی ہو ۔لیکن تمہیں ایسے وہاں سے لڑ جھگڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔ اور اپنے میاں کو بتائے بغیر بھی نہیں آنا چاہیے تھا۔ اس کا بھائی اس کو بہت سمجھتا ہے۔ کہ تم اپنا گھر اپنے ہاتھوں سے برباد نہ کرو۔ اس مسئلے کا بیٹھ کر کو حل نکالتے ہیں”رشتوں کی تلخیاں”۔
ثانیہ کا بھائی ثانیہ کے شوہر زبیر کو فون کرتا ہے۔ اور اس کو کہتا ہے۔ تم آ کر آج شام ثانیہ کو یہاں سے لے جاؤ ۔ بیٹھ کر بات کریں کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ زبیر شام کو ثانیہ کے گھر آ جاتا ہے۔ اور ثانیہ بھی اس کے ساتھ جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ ثانیہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر چلی جاتی ہے۔
اور پھر جاتے ہی زبیر کی ماں سے بھیrishton ki talkhiyan معافی مانگتی ہیں۔ اور سارے گھر کے کام اپنےسر پر لے لیتی ہے۔ اپنی ساس کو کوئی کام نہیں کرنے دیتی۔ سارا کچن کا کام کھانا بنانا کپڑے دھونا استری کرنا سب کچھ یہ خود کرتی ہے۔ اپنی ساس رضیہ کو چائے وقت پر دیتی ہے۔ اور اس کو کھانا دیتی ہے۔
ہسپتال لے کر جانا ہوگا:
اس کو پاوں بھی زمین پر نہیں رکھنے دیتی۔ لیکن ثنیہ یہ جو اتنی خدمت کر رہی تھی۔ اس کے پیچھے اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ یہ کسی کو بھی نہیں پتا تھا۔ ایسے ہی کچھ عرصہ گزر گیا۔ اور ایک دن اس کی ساس رضیہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ اور وہ بیہوش ہو گی۔ ثانیہ نے اپنے شوہر زبیر کو فون کیا۔
اور اس کو بتایا کہ ماں بیہوش ہو گئی ہے۔ rishton ki talkhiyan آپ جلدی سے گھر آ جائے امی کو ہسپتال لے کر جانا ہوگا۔ زبیر جلدی سے گھر آ جاتا ہے۔ اور اس کی امی کو ہسپتال لے کر چلے جاتے ہیں۔ ہوسپٹل ثانیہ کے بھائی فہد کا ہی ہوتا ہے۔ ثانیہ اس وقت اپنے بھائی کو بتاتی ہے۔ کہ اپنے ساس سے بہت زیاتی کی ہے۔
میں اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس لئے ایک ترکیب سوچی میں میڈیکل سٹور سے جاکر کر زہریلی دوائی لے کر آئیں۔ جس کو تھوڑی تھوڑی کر چایئے میں ڈال rishton ki talkhiyanکر دیتی تھی۔ کیا کبھی کھانے میں ڈال کر دیا کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ بھائی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔
خدا کے لئے میری سانس کو بچا لے۔ میں نے گناہ کیا ہے اور میں بہت شرمندہ ہو۔ ان سے سچے دل سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اس کا بھائی اس کو حوصلہ دیتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ غلطی انسان سے ہوتی ہے انسان غلطی کا پوتلا ہوتا۔ بہت بہتر ہوا جو تمہیں اپنی غلطی کا وقت سے پہلے اندازہ ہو گیا۔ اس کا بھائی اس کو حوصلہ دیتا ہے۔ کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا۔ تم پریشان نہ ہوں۔ تم نے سچے دل سے توبہ کی ہے۔ اللہ تعالی تمہیں ضرور معاف کرندے گے۔ تم اپنی ساسں سے معافی مانگ لینا۔ اور اپنے تعلقات سے بہتر کر لینا۔
rishton ki talkhiyan وظیفہ:
ساس بہو کا جھگڑا ختم کرنے کا وظیفہ:
اس وظیفے کو کرنے سے پہلے آپ کا باوضو حالت میں ہونا ضروری ہے۔ اور جس جگہ پر اس وظیفے کو کر رہے ہو۔ اس کا صاف ہونا بھی ضروری نہیں اپنے کپڑوں کا پاک صاف ہونا نہ ضروری ہے۔ اور قبلہ رخ ہو کر اس عمل کو کریں۔ کریں۔ اس سے کوئی بھی کر سکتا ہے۔ شوہر بھی کر سکتا ہے۔ یہ دو جھگڑا کرنے والوں میں صلح صفائی کرنا اور انفاق والا عمل ہے, بہت ہی زبردست ہم مفید عمل ہے۔
اس عمل کو کرنے سے پہلے آپ کو 7 مرتبہ درود ابراہیمی بڑا نماز والا پڑھنا ہے۔ اور پھر تیسرا کلمہ 73 rishton ki talkhiyan دفعہ پڑھنا ہے۔ اور پھر آخر میں 7 مرتبہ درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اس عمل کو پورے 23 دن کرنا ہے۔ آپ خود دیکھیں گے۔ کہ 23 دن میں اس کا فائدہ کیا ہوگا۔ اس عمل کو جائز کاموں کے لئے استعمال کریں۔
اسrishton ki talkhiyan عمل کا فائدہ:
یہ وظیفہ بہت طاقتور ہے۔ یہ وظیفہ ہر وقت گھر میں پیدا ہونے والی ناچاقی کے لیے ہے۔ ہر وقت جو گھر میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ چاہے وہ ساس بہو کا ہو یا بہو اور نیند کا ہو ۔ اس کو ختم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس کے لیے یہ وظیفہ بہت مفید ہے۔ یہ وظیفہ بہو اور نند میں اتفاق پیدا کرنے کیے لئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ساس بہو میں اتفاق محبت ڈالنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اسوظیفہ کو کرنے سے گھر میں ہروقت لڑائی جھگڑا رہنا ختم ہو جائے گا۔rishton ki talkhiyan سب ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئیں گے۔ اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے لگے. انشااللہ سب ٹیک ہو جائے گا۔